کیا مقامات مقدسہ طبی اور صحی مراکز کا مطلق بدل قرار دیا جائے؟

شفاء القلوب والارواح

کبھی بھی اس لئے مراقد اس لئے نہیں بنائے گئے کہ ہسپتال بند کر دئیے جائیں اور یہاں سب آجائیں یا اپنی تمام ممکنہ احتیاط مثلا صاف ستھرائی کو ترک کردیا جائے کہ مولا علیہ السلام کے حضور جا کر شفاء حاصل کی جائے ۔

بے شک ہمارے دین و معاشرے و دنیوی اعتقادات کی پختگی کے لئے مؤثر ترین ہے اور تمام عبادات کے لئے ایمان کاہونا لازمی ہے ۔

خود دعا جب مانگی جاتی ہے کہ مجھ سے دعا مانگو اور میں عطاء کرونگا اللہ تعالیٰ نے بھی نہیں فرمایا کہ طبی مراکز کا بدیل قرار دیا جائے یا ان مراکز سے روگردانی کی جائے مگر ایسا نہیں کہ دعا و زیارت فائدہ مند نہیں بلکہ حتمی ہے لیکن کلیا یہ مان لینا کہ طبی مراکز کو چھوڑ دیا جائے ۔

پرانے زمانے میں تصوف کا عقیدہ تھا کہ دعا بدیل ہے اسباب مادیہ کا جو کہ پرانے زمانے سے یہ جھگڑا چل رہا ہے

لیکن کیا کبھی یہ بھی سنا کہ کسی شیعہ عالم نے یہ کہہ کر ہسپتال بند کرادیا کہ ہمارے پاس زیارت عاشوراء و دعاء توسل موجود ہے ۔

بلکہ طبیب مجھے دوا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے شفاء دیتا ہے کیا دواء طلبی اور اس شفاء سے دعا کی قیمت کم ہوجاتی ہے ؟

اور اگر ضریح مطہر کے پاس سے شفاء یابی ہورہی اور یہ تو مشہور کیا جائے کہ شفاء مل رہی ہے مگر کسی مریض کے وجود سے دوسرا شخص مریض ہوجائے تو اسے صاحب ضریح کے نام سے منسوب کیا جائے گا کہ اب ضریح سے وائرس مل رہا ہے؟کیا یہ زائر کی بدبختی کہی جائے گی؟بالکل نہیں ۔

ان عبادی افعال کا ایک مقصد جانب روحی و تربیتی و ایمانی کو تقویت دینا ہے اور بالجملہ بھی اثرات ہیں مگر ایسے نہیں کہ انہیں ایک ہسپتال کا درجہ دے دیں کہ فقط شفاء طلبی کے لئے استعمال ہونے والے مراکز کی طرح استعمال کیا جائے

جیسا کہ بعض افراد نے مراقد کا رخ کیا اورضریح مقدس کو چاٹنے لگے اسے منفیاً بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان مراکز سے شفاء و امان نہیں ہے اور بے برکت مراکز ہیں اور بعید نہیں کہ فوراً کرامتاً باعث شفاء ہو مگر ایسا نہیں کہ انہی افعال کے لئے وقف کردیا جائے کیونکہ جو ہسپتال علاج و معالجہ کے لئے ہوتا ہے اگر وہیں سے مریض کو وائرس لگ جائے ۔

منسلکات