حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف

آپ کا مکمل تعارف حسین بن علی بن ابیطالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن قریش بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار معد بن عدنان ہے

آپ علیہ السلام کی والدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بنت رسول اللہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم ہیں ۔

آپ علیہ السلام کی اسم برگزاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ امر ہے کہ میں اپنے ان بچوں کے نام حسن و حسین رکھوں ۔

اور روایات میں نقل ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ اسماء کبھی استعمال نہیں ہوئے بلکہ سماوی اسماء ہیں ۔

3 شعبان 4ھ بمطابق جنوری 626ء کو حضرت امام حسین علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپکا نام حسین رکھا اور آپ کے کان میں اذان و اقامت فرمائی اور آپ کی آمد کےساتویں دن دنبہ ذبح کیا اور آپ علیہ السلام کے موئے مبارک کے وزن کے برابر چاندی صدقہ فرمائی اور آپ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے جو امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھتا ہے ، آپ علیہ السلام نے بیت نبوت میں پرورش پائی یہاں تک کہ آپ کا سن چھے سال ہوا ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے اپنے برادر بزرگ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کئی القاب مشترک ہیں جن میں زکی ،الطیب، الوفی ،السید ، المبارک ، النافع ، الرشید، اور جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

بعض روایات میں سید الشہداء اور شہید بھی منقول ہیں ۔

آپ کی اولاد میں علی السجادؑ، علی اکبرؑ ، علی اصغر ؑ ،جعفر ؑ، فاطمہ ؑ اور سکینہ ؑ ہیں ۔

یزید ملعون نے اپنی خلافت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے والئ مدینہ کو خط لکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرے مگر آپ علیہ السلام نے اس کے ارادوں کو جانتے ہوئے مدینہ ترک کردیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔

امام حسین علیہ السلام کے انکار بیعت کی خبر تمام خلافت اسلامیہ میں پھیل گئی اور آپ نے مکہ سے کوفہ کا سفر کیا جوکہ اپنے وقت میں ایک فتنوں کا ایک گڑھ سمجھا جاتا تھا مگر کوفہ کے شرفاء نے مل بیٹھ کو فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے ان فتن سے نجات حضرت امام حسین علیہ السلام کی سربراہی میں ہے اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھنے پر اتفاق ہوا تاکہ آپ علیہ السلام کو کوفہ بلایا جائے اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی جائے ایسے کئی خطوط جب آپ علیہ السلام تک پہنچے تو آپ نے اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیل علیہم السلام کو بلایا اور مزید تاکید کے لئے کوفہ روانہ کیا

جب جناب مسلم علیہ السلام کوفہ پہنچے تو انہوں نے کوفہ شہر کو امام حسین علیہ السلام کی خلافت اور یزید لعین کے خلاف پایا اور ایک روایت میں ہے کہ 18 ہزار افراد نے جناب مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی جس کی بناء پر جناب مسلم بن عقیل ہے حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ کی طرف جلد از جلد پہنچنے کا لکھا مگر امام حسین علیہ السلام کے کئی اصحاب نے آپ کو کوفہ کی طرف منع فرمایا ۔

جب اس بات کی خبر نئے اموی خلیفہ کو پہنچی تو سب سے پہلے اس نے والئ کوفہ نعمان بن بشیر کو برخاست کردیا اور اس کی جگہ عبید اللہ ابن زیاد کو والی مقرر کیا جس نے سب سے پہلے قبائلی سردارو ں کو دو اختیارات دئیے اول امام حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ دیں یا پھر شام سے آنے والے لشکر سے نبرد آزمائی کے لئے تیار ہوجائیں جو انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا ان دھمکیوں نے اہل کوفہ پر اثر کیا اور لوگوں آہستہ آہستہ مسلم بن عقیل کو چھوڑنے لگے یہاں تک کہ جناب مسلم بن عقیل علیہم السلام کو شہید کردیا گیا ۔

لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کوفہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے کیونکہ امام علیہ السلام کو جناب مسلم علیہ السلام کے آخری خطوط کے بعد کوئی خط نہ پہنچا تھا کہ کوفہ کے حالات بدل چکے تھے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ارض "طف" آپہنچے ۔

اور روز عاشورا کربلاء مقدسہ کا وہ روز بھی آن پہنچا جب میدان کربلاء مقدسہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہ تھا آپ علیہ السلام پر نیزوں تیروں تلواروں کے پہ در پہ وار کئے گئے اور روایت میں ہے کہ شمر بن ذی الجوشن ملعون نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سراقدس تن سے جدا کیا جب کہ آپ علیہ السلام حالت نماز میں تھے اور امام حسین علیہ السلام 56 سال کے سن میں اس دنیا سے جام شہادت نوش کیا ۔

آپ علیہ السلام کی شہادے نے تمام عالم میں بسنے والے مسلمانوں اور انسانیت پر انتہائی گہرا اثر چھوڑا۔

منسلکات