جنت البقیع کی تعمیر کے مختلف مراحل

بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا 3 شعبان 3ھ کو عثمان بن مظعون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسدسلام اللہ بھی یہاں دفن ہیں  جب کہ عثمان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔

ساتویں صدی ہجری میں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ، عقیل ابن ابی طالب علیہ السلام ،عبداﷲ بن جعفر طیارعلیہ السلام ، امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلب رجوان اللہ علیہ کی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن  علیہ السلام کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے ایک حجرہ ، موسوم بہ بیت الحزن ہے جہاں جناب سیدہ  کونین سلام اللہ علیہا جاکر اپنے والد کو روتی تھیں۔ تقریباً ایک سو سال بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں بقیع کا جو خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش  میں اضافہ کیا اس طرح گزشتہ 12 سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ رہی جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتی رہی ۔

 

منسلکات