قتل ہونا ہماری عادت ہے

آپ کا مکمل تعارف علی بن حسین بن علی بن ابیطالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن قریش بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار معد بن عدنان ہے ۔

5 شعبان 38ھ کو مدینہ منورہ میں آپ کی آمد ہوئی اور تمام شیعہ مسالک کے نزدیک چہارم امام  علیہ السلام ہیں ۔

آپ کی کنیت اور القاب ابوالحسن اور ابو محمد ہیں جبکہ القاب میں سب سے زیادہ مشہور زین العابدین ، سید الساجدین اور سجاد علیہ السلام مشہور ہیں ۔

آپ کی والدہ محترمہ شاہ زناں بنت یزد جرد اور دوسری روایت میں شہر بانو بنت یزدجرد بن شہریار ہیں

آپ علیہ السلام کی اولاد محمد الباقر، عبداللہ ،الحسن، الحسین، زید ، عمر، الحسین الاصغر ، عبدالرحمن ، سلیمان، علی، محمد الاصغر ،علیہ، فاطمہ، عائشہ ، خدیجہ اور ام کلثوم ہیں ۔

آپ علیہ السلام کی مدت امامت 35 سال تھی جو کہ 61ھ مابعد شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام سے 95ھ تا روز شہادت تھی ۔

روایت و مصادر سے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کربلاء مقدسہ میں موجود ہونا ثابت ہے اور آپ سے واقعہ کربلاء مقدسہ کی دقیق تفاصیل مروی ہیں ۔ جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے 60ھ میں یزید لعین کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور مدینہ سے مکہ کی طرف خروج فرمایا اور یہاں سے کوفہ کی طرف عازم سفر ہوئے مگر امام سجاد علیہ السلام 2 محرم الحرام کو کربلاء مقدسہ کی سختی کو برداشت نہ کرسکے اور علیل ہوگئے یہاں تک مابعد شہادت امام مظلوم علیہ السلام اسیری و بیماری کی حالت میں کوفہ پہنچے اور وہیں آپ علیہ السلام نے خطبات اور یزیدی لشکر کی ظلم کی داستان سنائی .

جب حضرت امام سجاد علیہ السلام کوفہ میں داخل ہوئے اور ابن زیاد کے دربار مین لایا گیا تو ابن زیاد ملعون نے سوال کیا کہ تم کون ہو؟ امام علیہ السلام نے جواب فرمایا : میں علی ابن حسین علیہم السلام ہوں ۔

اس نے پھر کہا کیا کہ اللہ نے علی بن حسین کو قتل نہیں کیا؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا :میرے ایک بھائی کا نام بھی علی ابن حسین علیہم السلام تھا جنہیں لوگوں نے شہید کردیا ہے ، ابن زیاد لعین نے کہا کہ : یوں کہو کہ اللہ نے قتل کیا ۔ پس امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ موت کے وقت سانسوں کو روک لیتا ہے ۔ جس پر ابن زیاد لعین غصہ ہوگیا اور گستاخانہ آواز میں بولا تم میں اتنی جرات کہ مجھے جواب دو؟ اور حکم دیا کہ انہیں شہید کردو ۔

پس سیدہ زینب سلام اللہ علیہا درمیان میں آئیں اور امام علیہ السلام کو گلے لگا لیا اور کہا کہ اے ابن زیاد اگر ان کے قتل کا ارادہ رکھتے ہو تو پہلے مجھے قتل کرنا ہوگا لیکن امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا پھوپھی اماں مجھے بولنے کی اجازت دیں اور فرمایا : کیا ہمیں موت سے دھمکاتے ہو اے اب زیاد؟ کیا تم نہیں جانتے کہ قتل ہونا ہماری عادت اور شہادت اللہ کی طرف سے ہماری کرامت ہے ۔

پھر ابن زیاد نے انہیں مسجد کے ساتھ والے گھر میں قید میں ڈال دیا ۔

آپ کی علمی بلندی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام مدینہ میں اسلام کی پہلی صدی میں رہے جس کے بارے میں الزھری کا کہنا ہے کہ " علی اب الحسین علیہ السلام سے زیادہ میری نشست کسی کے ساتھ نہ تھی اور آپ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہ پایا"

اور جن علماء نے آپ سے روایات نقل کیں اور محدثین بنے ان میں بعج کو الذھبی نے یوں نقل کیا ہے :

آپ علیہ السلام کے بیٹے محمد باقر و زید و عمر اور الزھری و عمرو بن دینار و حکم ابن عتیبہ و زید بن اسلم ويحيى بن سعيد، وأبو الزناد، وعلي بن جدعان، ومسلم البطين، وحبيب بن أبي ثابت، وعاصم بن عبيدالله، وعاصم بن عمر ابن قتادة بن النعمان، وأبوه عمر بن قتادة، والقعقاع بن حكيم، وأبو الاَسود يتيم عروة، وهشام بن عروة بن الزبير، وأبو الزبير المكي وأبو حازم الاَعرج، وعبد الله بن مسلم بن هرمز، ومحمد بن الفرات التميمي، والمنهال بن عمرو ہیں جب کہ اہل تشیع میں سے ابان بن تغلب ، ابو حمزہ ثمالی جیسے کبار اصحاب جنہوں نے آپ علیہ السلام سے تفسیر قرآن کی تعلیم اور ناسخ و  نسوک کے علوم کے ساتھ احکام شریعہ جیسے علوم کو حاصل کیا ۔

صاحب تفسیر معروف الشیخ طنطاوی لکھتے ہیں کہ صحیفہ سجادیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں حیران ہو کہ کس طرح ہم اتنی بیش بہا خزانے سے دور ہیں جو ہمارے پاس اہل بیت علیہم السلام سے وارد ہوئی ہے کہ میں نے جتنا بھی صحیفہ سجادیہ میں تعمق کیا ہے اسے کلام مخلوق سے اعلیٰ اور کلام خالق کے قریب تر پایا ہے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے 25 محرم الحرام 94ھ کو شہادت پائی اور آپ علیہ السلام کو ولید بن عبدالملک کے کہنے پر زہر دیا گیا اور آپ کے جسد اطہر کو جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن کیا گیا جہاں آج قبر اقدس موجود ہے

منسلکات